Assalam o Alikum

plesae follow us

Wednesday, June 12, 2019

قرآنی رہنمائی کا اسلوب


  قرآنی رہنمائی کا اسلوب 


قرآن مجید نے رہنمائی فراہم کرنے کے لیے جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس میں اس امر کا اہتمام کیا  




گیا ہے کہ چند مثالیں ہمارے سامنے رکھ دی جائیں جن سے یہ جانا جا سکے کہ کس طرح ہدایت یافتہ لوگوں نے مختلف حالات میں عملی طور پر درست اورpositive response
پیش کیا۔ positive responseکی اس زمین پر سب سے بہترین مثالیں وہی ہیں جو خود اس زمین پر اللہ کے نمایندوں نے قائم کی ہیں۔
انبیا علیہم السلام نے مختلف مواقع پہ ہمیشہpositive responseکا انتخاب کیا، جسے قرآن مجید کی اصطلاح میں ''ہدایت'' اور ''صراط مستقیم'' کہاجاتا ہے۔مثال کے طور پرسیدنا یوسف کے بھائیوں نے ان پر ستم کی انتہاکردی تھی۔انھیں کنوئیں میں ڈالا، اس کے بعد انھیں غلام بنا کر بیچا گیا۔ ذراتصورکرے کوئی کہ اتنا ستم کسی پر ہو جائے تو اس کے دل میں بھائیوں کے لیے کس قسم کے جذبات ہوں گے؟ بعد میں جب سیدنا یوسف کو پروردگار نے اقتدار اور عروج عطا فرمایا تو ان کے بھائی ان کے سامنے کم زور ہو چکے تھے۔وہ چاہتے تو ان سے سخت ترین انتقام لے سکتے تھے، مگر اس موقع پر بھی انھوں نے انھی بھائیوں سے یہی کہا کہ 'لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُالْيَوْمَ'،یعنی آج بھی میں تم سے کسی قسم کاکوئی بدلہ نہیں لینا چاہتا۔




قرآن مجید کی ہدایت کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ بہتconfusingصورت حال میں فکر کوبہکنے سےبچا دیتا ہے۔وہ ایسی فکریdirectionدے دیتا ہے کہ انسان کی فکر اس راہ پر چل کر اپنے لیے آسانی دریافت کر لیتی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید نے ہمیں یہ اصول بتایا کہ ''ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے''[1]۔
اس اصول میں ایک اہم فکریdirectionہے ۔ مثال کے طور پر آپ کے سامنے کام کرنے کے کوئی دسoptions تھے، آپ نے کوئی ایکoptionچنا اور اس میں کوئی ایسی مشکل نکل آئی کہ اب اس کام کا انجام پانا ممکن نہیں لگتا۔ ایسی حالت میں انسان بہت مایوس ہوجاتا ہے۔ اس کام سے ہی پیچھے ہٹ جاتا ہے یا بہت بد دل سا ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت میں اللہ تعالیٰ یہ بتا رہا ہے کہ دل شکستہ مت ہو جائیے، یہ یقین رکھیے کہ اسی مشکل کے ساتھ جڑی ہوئی آسانی بھی ہے۔ آپ اس کے ساتھ جڑی ہوئی اس آسانی کو تلاش کریں ۔ یہ مایوسی کا موقع نہیں، بلکہ آسانی تلاش کرنے کا موقع ہے۔ آپ اس وقت ذہن پر ٹوٹی ہوئی اس مصیبت کے اثرسے سوچنے کے عمل کو منفی راہ پر چلنے سے بچالیں۔ایسے موقع پر منفی فکر سے بچنے کی واحد بنیاد یہی ہے کہ آپ کو یہ یقین ہو کہ اس مشکل کے ساتھ آسانی کا وجود یقینی طور پر ہے۔ اللہ تعالیٰ بتا رہے ہیں کہ دنیا میں امکانات کی کوئی حد نہیں۔ مشکل کے ساتھ جڑی آسانیاں یقینی طور پر موجود ہیں ۔ آپ ان آسانیوں کو دریافت کر کے اپنے عمل کو درست اور مثبت راہ پر ڈال دیجیے۔
اس اصولی ہدایت کا تعلق ایسے مواقع سے بھی ہے کہ جب انسان کو کوئی ناگوار صورت حال پیش آ جاتی ہے، ایسے میں انسان سخت مایوسی میں ڈوبجاتا ہے۔ اسے ہر طرف ناامیدی کی تاریکی چھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ اصول ذہن میں راسخ ہو تو انسان عین اسی مشکل کو ایسے انداز سے محسوس کر لیتا ہے جس سے وہ بہت آسان محسوس ہونے لگتی ہے۔ مثال کے طور پر جون جولائی کے موسم میں چند گھنٹے باہر دھوپ میں کھڑا ہونا سخت مشکل کام ہے۔ لوگوں کو اس مشکل کو برداشت کرنے کے لیے آمادہ کرنا بھی سخت مشکل کام ہے۔لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے پولیس والے دھوپ میں بھی سڑکوں پر کھڑے رہتے ہیں۔ان کے لیے وہاں کھڑا ہونا اس لیے آسان ہوا ہے کہ وہ اس مشکل کے ساتھ جڑا ہوا آسانی کا پہلو ذہن میں رکھتے ہیں۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کھڑے رہنے سے ہمیں مہینے کے آخر میں رقم ملنی ہے۔ اس رقم کا تصور اس دھوپ کی مشکل کو قابل برداشت بنا دیتا ہے۔ جس دن اس رقم کا تصور ختم ہو جائے یہی پولیس والے چند گھنٹے دھوپ میں ڈیوٹی دینے کو آمادہ نہ ہو پائیں، جو سالوں یہ ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔
کتنی خوب صورت فکری رہنمائی قرآن مجید ان الفاظ میں دیتا ہے کہ اس ناتمام اور امتحان کی دنیا میں تمھیں جان ومال کی اور معلوم نہیں کن کن آزمایشوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس مشکل کو گوارا کرنا آپ کے لیے سخت مشکل ہو سکتا ہے۔ ایسی مشکل میں ایک مومن کی فکر آسانی کی اس راہ پر آ جانی چاہیے کہ ہم یہاں اپنی مرضی کی دنیا میں ہیں ہی نہیں، جو یہ تمنا کریں کہ ہمیں مل جانے والی کوئی شے کبھی چھن ہی نہ سکے۔ ہم اور یہ ساری دنیا ہمارے مالک کی ہے اور اس نے یہ سب امتحان کے مقصد سے تخلیق کیا ہوا ہے۔ اس چھن جانے کے دوران ہمیں فکر و عمل کی منفی راہ پر نہیں چلنا، بلکہ یہ سوچنا ہے کہ کل ہم نے بھی مالک کے سامنے پیش ہو جانا ہے۔ہم مثبت راہ پر رہے تو وہاں سب کھویاہوا پا لیں گے اور منفی راہ پر چل پڑے تو یہاں کا سب پانا بے معنی ہو جانا ہے۔ہمارا مالک چھن جانے پر، صبر کر لینے پر بہت بڑے انعام سے نوازے گا۔ یہاں مشکل پر نہیں اس انعام پر نظر رہنی ضروری ہے۔جیسے پولیس والے کی دھوپ پر نہیں، بلکہ تنخواہ پر نظر ہوتی ہے۔کسی مشکل سے جڑا یہ پہلو انسان کو شکایت و ناشکری کی نفسیات سے بچا کر صبروامید کی راہ پر لے آتا ہے۔ایسی کیفیت میں فکر کو درست راہ پر رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ایک دفعہ ایک واقعہ ہوا۔ چلتے چلتے گاڑی الٹ گئی۔ حادثے میں انسان کی سوچنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔اس کے لیے صحیح طرح فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اُس وقت بس یہی ذہن میں ہوتا ہے کہ کسی طرح ہم اس گاڑی سے کہیں باہر نکل جائیں ۔ اب اس گاڑی سے انھوں نے باہر نکلنا تھا، تو ایک بندہ تھوڑا دبلا تھا، وہ جلدی جلدی گاڑی کے گیٹ والی کھڑکی سے نکل گیا اور نکل کر دوسرے کو بھی اسی کھڑکی سے، بڑی مشکل سے کھینچ کھینچ کر نکال لیا۔ وہ سائیڈ پر بیٹھے، ہوش ٹھکانے پر آنے کے بعد ایک نے کہا کہ یار! یہ ہم نے کیا کیا؟ گاڑی کا گیٹ کھول کر آسانی سے نکل جاتے، ہم خواہ مخواہ کھڑکی سے نکلنے میں زور لگاتے رہے۔ اس موقع پرگیٹ کھولنے کی آسانی انھیں یاد ہی نہیں رہی اور وہ مشکل راہ میں پھنسے رہے۔ایک وہاں سے نکل گیاتو سب کے ذہن کی سوئی یہیں اٹک گئی کہ نکلنے کی واحدراہ یہی مشکل راہ ہے، جب کہ حقیقت یہ تھی کہ وہاں سے نکلنے کی بہت آسانی سے سمجھ آ جانے والی آسان سی راہ بھی موجود تھی۔توجہ نہ ہو سکنے کی وجہ سے وہ واضح اور آسان راہ ان پر مخفی رہ گئی۔ دنیا میں جینے کی درست راہ یہی ہے کہ مسائل کو نظر انداز کر کے امکانات کی تلاش کی فکری عادت اپنائی جائے۔
بہتا ہوا پانی یہ فیصلہ کر لے کہ میں اس بہاؤ کی راہ میں آنے والے پتھر کو زور لگا کے ہٹاؤں گا اور پھر آگے بڑھوں گا توپھر وہ کبھی بھی آگے نہیں گزر سکتا ۔ آگے بڑھنے کی راہ یہ ہے کہ پانی پتھر سے الجھنے کے بجاے اسی پتھر کے ساتھ موجودبے شمار آسان جگہ سے گزر جائے۔ اسی طرح یہ ایک ضابطہ ہے کہ ہر تنگی کے ساتھ، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہوتی ہے اور ان آسانیوں کو دریافت کر کے ہم اپنی زندگی کو مایوسی کے بغیر درست طرح سے جینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
____________
[1]۔ الم نشرح۹۵: ۵۔ 'فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا'۔

No comments:

Post a Comment